اب تو الحمدللہ گرمی کی چھٹیاں ہیں میں نے تو ایسے ایسے بچے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے فیس بک کا سافٹ ویئر اپنے موبائل فون پر چڑھا رکھا ہے آج کل ہم لوگ ساری عمر میں میں اتنی کتابیں پڑھ نہیں پاتے جتنی کسی زمانے کے علماء لکھ ڈالتے تھے۔
پیارے بچو! آپ کو گرمی کی چھٹیاں ہوچکی ہیں اور ان چھٹیوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنا وقت اچھے کاموں اور پڑھائی میں گزاریں۔آئیے وقت ضائع کرنے کی بجائے لوگوں کی بھلائی کیلئے کچھ کر گزریں! دنیا میں وقت ضائع کرنے سے زیادہ کوئی کام آسان نہیں۔ بندہ اَن پڑھ ہو یا پی ایچ ڈی ‘ امیر ہو یا غریب ‘ نالائق ہو یا قابل‘ وقت ضائع کرنے کی صلاحیت کم و بیش سب میں یکساں ہی ہوتی ہے۔ فرق صرف طریقہ کار یا اس صلاحیت کو بہترین انداز میں بروئے کار لانے کا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں میری دلچسپی کا باعث خاص طور پر وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ جو اپنے تئیں کسی قدر باشعور ہوتے ہیں اور بظاہر انہیں وقت کی قدروقیمت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ا گر آپ ایسے لوگوں کی روز مرہ زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو ان کی مصروفیات دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان کا وقت کس قدر مفید کاموں میں گزرتا ہے۔ وقت ضائع کرنے کا ایک سہل اور جدید طریقہ انٹرنیٹ کی صورت میں بھی دستیاب ہے اور فی زمانہ اس طریقے سے جتنا وقت ضائع کیا جاسکتا ہے اور کسی طریقے سے ممکن نہیں۔ اگر آپ صبح آٹھ بجے سے دو بجے تک کالج یا سکول میں جاتے ہیں اور صدق دل سےیہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی کام کرنا گناہ عظیم ہے تو باقی کا وقت آپ کو فیس بک پر اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے‘ یوٹیوب پر نئی ویڈیوز ڈھونڈنے‘ کمپیوٹر کیلئے نیا وال پیپر تلاش کرنے‘ ہر ایک گھنٹے کے بعد ای میلز چیک کرنے‘ موبائل فون کا پیکیج تبدیل کرنے‘ ایس ایم ایس کرنے یا انٹرنیٹ کی لامتناہی دنیا میں سرفنگ کرنے میں صرف کرنا چاہئے اور ہم ایسا ہی کرتے ہیںاب تو الحمدللہ گرمی کی چھٹیاں ہیں میں نے تو ایسے ایسے بچے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے فیس بک کا سافٹ ویئر اپنے موبائل فون پر چڑھا رکھا ہے آج کل ہم لوگ ساری عمر میں اتنی کتابیں پڑھ نہیں پاتے جتنی کسی زمانے کے علماء لکھ ڈالتے تھے۔ آئیے بچو! اپنے بڑوں کے کچھ علمی کارنامے پڑھیں۔ حضرت ابو جعفر محمد ابن جریر الطبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں جو علمی کارناےم سرانجام دیے آج کل کے زمانے میں ان کا تصور بھی محال ہے۔ الطبری ’’ اسلامی تاریخ‘ فقہ‘ قانون حدیث اور قرآن‘‘ کے ماہر اور بلند پایہ عالم دین تھے۔ لفظ ’’بلند پایہ‘‘ ان کی علمی عظمت کے سامنے بے حد حقیر ہے۔ بغداد میں ان کا روزکا معمول یہ تھا: وہ ظہر کی نماز سے لے کر مغرب تک اپنے طالب علموں کو تفسیر پر لیکچر دیتے‘ مغرب سے عشاء تک انہیں قانون کی تعلیم دیتے اور پھر رات گئے اپنے کمرے میں جاتے جہاں تادیر وہ مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے۔ وہ روزانہ اوسطاً 40 صفحات لکھتے۔ ا پنی اس روٹین کے دوران ایک دن الطبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے فیصلہ کیا کہ انہیں قرآن مجید کی جامع تفسیر لکھنی چاہئے جب انہوں نے اس نیک کام کا بیڑہ اٹھایا تو کسی کو یقین نہ تھا کہ وہ اپنی زندگی میں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچاسکیں گے لیکن جب کام شروع ہوا تو ان کے گھر پر طالب علموں اور دیگر ہم عصر علماء کا تانتا بندھ گیا۔ لوگ یہ دیکھنے کیلئے آتے کہ الطبرانی کس قدر محنت اور عرق ریزی سے یہ کام کررہے ہیں۔ کئی سال کی شانہ شبانہ روز محنت کے نتیجے میں بالآخر الطبرانی رحمۃ اللہ علیہ قرآن مجید کی تفسیر لکھنے میں کامیاب ہوئے جو 30 جلدوں پر مشتمل ہے اور ’’ تفسیر طبری‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ الطبری رحمۃ اللہ علیہ کا اگلا کارنامہ اس سے بھی زیادہ محیر العقول ہے 65 برس کی عمر میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اسلامی تاریخ کا ایک انسائیکلو پیڈیا مرتب کریں گے۔ ایسا کام جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے اس کام کی تیاری شروع کی اور اگلے بارہ برسوں میں یہ کارنامہ بھی انجام دے ڈالا جو ’’تاریخ الرسل والملوک‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسلامی تاریخ کا یہ انسائیکلوپیڈیا قرآن مجید کے نزول سے لے کر سن 915ء تک کے حالات و واقعات کی مکمل اور جامع کتاب ہے‘ جس کی کئی جلدیں ہیں۔ 65 برس کی عمر میں شروع کیا گیا یہ کام 12 سال کی محنت کاشاقہ کے بعد 77 برس کی عمر میں مکمل ہوا اور بالآخر 85 برس کی عمر میں الطبری رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد میں وفات پائی۔ یقیناً الطبری رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں کوئی انٹرنیٹ‘ فیس بک‘ یوٹویب‘ ای میل‘ کمپیوٹر یا ٹی وی کچھ بھی نہیں تھا اور شاید اس لئے وہ اپنی زندگی میں یہ تمام ناقابل یقین کام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں جن چیزوں کے ذریعے ہمیں اپنی استعداد بڑھا کر تھوڑا بہت علمی کام کرنا چاہئے ہم نے ان کے ذریعے وقت ضائع کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرلئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی الطبری نہیں بن سکتا لیکن ہر کسی کو وقت ضائع کرنے والی مشین بھی نہیں بننا چاہئے۔ والدین سے بھی کہنا چاہتی ہوں کہ جہاں ہم اپنے بچوں کیلئے دو دو سائنس ٹیوٹر رکھواتے ہیں وہاں ہمیں ان کی دینی تعلیم کیلئے بھی ایک ٹیوٹر کا انتظام کروانا چاہئے تاکہ ہم اور ہمارے بچے دین کو سمجھ سکیں کیونکہ وحی کا علم‘ وہ علم ہے جو ہمیں تمام کے تمام حقوق بتاتا ہے اور عالم دین کی فضیلت کو تو کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ’’ جو دین کا علم جانتا ہے اس کیلئے زمین و آسمان کی ہر چیز حتیٰ کہ سمندر میں موجود مچھلیاں بھی اس کیلئے دعائیں کرتی ہیں اور یہ پروٹوکول ہمیں ہمارے نبی کریمﷺ نے دیا ہے۔ اتنا عظمت والا علم اور دین جس کو ہم اہمیت نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عقیدہ توحید کو صحیح سمجھنے اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اعمال اس قابل بنائے کہ وہ عنداللہ شرفِ قبولیت پاسکیں۔ آمین! اور ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!
ماں اور چند اقوال
ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ (حدیث نبویﷺ)
اگر مجھ کو میری ماں سے جدا کردیا جائے تو میں پاگل ہوجائوں گا۔ (حکیم لقمان)۔ ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے۔ (اورنگزیب عالمگیر)۔ ماں کی خوشنودی دنیا میں باعث دولت اور آخرت میں باعث ِ نجات ہے۔ (سعدی رحمۃ اللہ علیہ)۔ ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ (الطاف حسین حالی رحمۃ اللہ علیہ )۔سخت سے سخت انسان کو ماں کی پرنم آنکھیں موم کرسکتی ہیں۔ (علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ)۔میری ہر تکلیف و غم میں میری ماں کا تصور فرشتہ بن کر آتا ہے۔ (ابو الفضل فیاض)۔ماں اور مہکتے پھول میں کوئی فرق نہیں ۔(برنارڈ شاد)۔میری ماں دنیا کی خوبصورت ترین ماں ہے۔ (مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ)۔میری ماں دنیا کی عظیم ترین ہستی ہے۔ (ظہیرالدین بابر)۔ماں کی آغوش انسان کی پہلی درسگا ہ ہے۔ (ارسطو)۔ماں انسان کو مضبوط ارادے عطا کرتی ہے۔ (شیکسپیئر)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں